ذاتی مراسم اور سعودی اتحاد: کیا نواز شریف پاکستان کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں؟

IQNA

ذاتی مراسم اور سعودی اتحاد: کیا نواز شریف پاکستان کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں؟

15:01 - December 20, 2015
خبر کا کوڈ: 3467429
بین الاقوامی گروپ:پاکستان نے سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد میں شمولیت کی باضابطہ تصدیق کر دی ہے تاہم ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سعودی عرب سے موصول ہونیوالی تفصیلات کے بعد طے کیا جائیگا کہ اس فوجی اتحاد میں پاکستان کا کردار کس نوعیت کا ہوگا

ایکنا نیوز- شفقنا-اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وارپریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان نے پہلے ہی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے انسداد کیلئے اقوام متحدہ اور اوآئی سی کی قراردادوں پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ کیا تھا جبکہ ان قراردادوں میں بھی دہشت گردی‘ انتہاء پسندی کی سوچ کیخلاف علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لینے پر زور دیا گیا ہے۔ 24 گھنٹے کے اندر اسلام آباد کی یہ قلابازی صرف اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے علاوہ خارجہ امور پر بھی کسی واضح اور دو ٹوک پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہے۔ ملک میں مختلف سرکاری اداروں کے درمیان تعاون و اشتراک کی شدید کمی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی اور اپنے طور پر فیصلے کرنے کی عادت قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ ملک کے سیاست دان فوج کے سامنے کوئی ٹھوس مؤقف اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یا یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کی اصل ترجیح قومی مفاد کی بجائے طاقتور اور مالدار دوست ملکوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے طاقتور ادارے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ تاہم کسی بھی ادارے کے پاس خواہ وہ فوج ہو یا سیاسی حکومت تمام امور کو ملا کر دیکھنے اور دنیا میں رونما ہونے والے حالات اور تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت نہیں ہے۔ بین الریاستی مراسم میں ہمارے دوسرے ممالک کے ساتھ جنگی دفاعی تعاون کے معاہدے تو ہو سکتے ہیں تاہم یہ معاہدے ملکی سلامتی اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ہی کئے جاتے ہیں جن میں یہ خیال بہرصورت رکھا جاتا ہے کہ جس ملک کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا جارہا ہے وہ ہماری افواج کو ہمارے کسی دوست ملک کی سالمیت کیخلاف استعمال نہیں کریگا۔ بلاشبہ ہر ملک کو اپنی خودمختاری اور سلامتی عزیز ہوتی ہے اس لئے کوئی ملک بیرونی تعلقات کے حوالے سے اپنی سلامتی اور خودمختاری کو دائو پر نہیں لگاتا۔ حرمین الشریفین کے حوالے سے سعودی دھرتی ہمارے لئے مقدس دھرتی ہے اور حرمین الشریفین کی حفاظت ہمارا ملی اور اسلامی فریضہ بھی ہے جس کی ادائیگی میں ہماری جانب سے پہلے بھی کبھی کوئی فروگزاشت نہیں ہوئی اور آئندہ بھی حرمین الشریفین کو کسی خطرہ کی صورت میں افواج پاکستان سیسہ پلائی دیوار بنیں گی تاہم سعودی مفادات ایک الگ معاملہ ہے جس میں دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ہمیں بھی اپنے مفادات کو اسی طرح پیش نظر رکھنا ہوگا جیسے برادر سعودی عرب اپنے مفادات کو فوقیت دیتا ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد کا تصور خواہ شہزادہ محمد بن سلمان کی ذاتی مجبوریوں کا مظہر ہو یا اس کا اعلان مشرق وسطیٰ میں امریکی بدحواسی کو چھپانے کے لئے کیا گیا ہو، یہ بات طے ہے کہ نہ تو یہ اتحاد کسی مؤثر قوت میں تبدیل ہو سکتا ہے اور بالفرض محال امریکی سرپرستی اور سعودی دولت کے سہارے اس لولے لنگڑے اتحاد کو مصنوعی ٹانگیں فراہم بھی کر دی گئیں تو بھی یہ ” فوجی قوت “ مشرق وسطیٰ میں روس کی مداخلت اور ایران کے اثر و رسوخ کی موجودگی میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دینے میں ناکام رہے گی۔ امریکہ ہو یا سعودی عرب یا ان دونوں کے آگے بے بس و مجبور پاکستان …….. اگر شام میں تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا اندازہ کئے بغیر فرقہ بندی کی بنیاد پر دہشت گردی سے لڑنے کا ارادہ کریں گے اور اس کا مقصد دمشق میں اپنی مرضی کی حکومت کو مسلط کرنا ہو گا تو وہ علاقے میں رونما ہونے والے نئے اشتراک اور تبدیلیوں کی بنا پر اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ دمشق میں بشار الاسد کی حکومت قائم رہے یا اسے ختم کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی کئی دہائیوں پر محیط غلط کاریوں کو قبول کرنے اور یہ تسلیم کرنے پر تیار ہے کہ اب معاملات صرف واشنگٹن کی صوابدید اور خواہش کے مطابق طے نہیں ہو سکتے۔ اگر امریکہ یہ ادراک کرنے میں ناکام ہے تو اس کے کمزور حلیف یعنی سعودی عرب یا پاکستان کیوں کر اس حوالے سے درست اور بصیرت سے بھرپور حکمت عملی اختیار کر سکتے ہیں۔

6259

نظرات بینندگان
captcha